جمعرات 11 دسمبر 2025 - 23:10
حرم الٰہی میں ناموسِ خدا کی ولادت

حوزہ/مکہ کی رات ہمیشہ سے اپنے اندر ایک خاص جلال رکھتی ہے—وہ رات جب ریگستانی ہوائیں بھی کسی پوشیدہ تسبیح کی مانند سرگوشیاں کرتی ہیں اور آسمان اپنے ستاروں کو ایسی ترتیب میں سجاتا ہے گویا کوئی مقدّس راز دنیا پر نازل ہونے والا ہو۔ مگر 20 جمادی الثانی سن 5 بعثت کی رات عام رات نہ تھی؛ اس میں ایک عجب کیفیت کی روشنی گھلی ہوئی تھی، ایک نرمی، ایک چمک، ایک سکون جس نے حجاز کی وادیوں کو نئے سرے سے زندگی بخشی۔ گویا اس رات کائنات سانس روکے منتظر تھی اُس نور کی جو آسمانوں میں پہلے سے بنام منصورہ پہچانا جاتا تھا، مگر زمین اسے پہلی بار دیکھنے والی تھی۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| مکہ کی رات ہمیشہ سے اپنے اندر ایک خاص جلال رکھتی ہے—وہ رات جب ریگستانی ہوائیں بھی کسی پوشیدہ تسبیح کی مانند سرگوشیاں کرتی ہیں اور آسمان اپنے ستاروں کو ایسی ترتیب میں سجاتا ہے گویا کوئی مقدّس راز دنیا پر نازل ہونے والا ہو۔ مگر 20 جمادی الثانی سن 5 بعثت کی رات عام رات نہ تھی؛ اس میں ایک عجب کیفیت کی روشنی گھلی ہوئی تھی، ایک نرمی، ایک چمک، ایک سکون جس نے حجاز کی وادیوں کو نئے سرے سے زندگی بخشی۔ گویا اس رات کائنات سانس روکے منتظر تھی اُس نور کی جو آسمانوں میں پہلے سے بنام منصورہ پہچانا جاتا تھا، مگر زمین اسے پہلی بار دیکھنے والی تھی۔

وہ نور جو آسمان میں بنام "منصورہ" پہچانا جاتا تھا زمین پر "فاطمہ" کے نام سے اس کا تعارف ہونا تھا، وہ نور جو زہرا کہلانے والا تھا، بیت خدیجہ میں آسمانی نور کا نزول ہونے والا تھا، مکہ کے نواح میں—جہاں قریش کی بلند قبائلی انا اور بتوں کی سنگلاخ خاموشی تھی— بیت حضرت خدیجہؑ میں ایک خاموش مگر بہت عظیم چہل پہل جاری تھی۔ وہ خدیجہؑ جو کبھی مکہ کی دولت، شرافت اور عزت کا مرکز تھیں، اب بانی اسلام کی شریکہ حیات و ہدف اور اعلان اسلام کے بعد تنہائیوں کی چادر اوڑھے بیٹھی تھیں۔ رشتے داروں نے منھ موڑ لیا تھا، سہیلیاں دروازے تک آنا چھوڑ چکی تھیں اور خواتین نے مدد و تعلق کے سارے دروازے بند کر دیے تھے۔ مگر جس سے سب منھ موڑ لیں، خدا اُس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔

اس رات بھی خدیجہؑ اکیلی نہ تھیں۔
فرشتوں کے گروہ خدمت میں حاضر تھے۔
جنت سے حوریں اتاری جا رہی تھیں۔
اور فضا میں نور کا ایک ہالہ سا پھیل رہا تھا۔

روایات بتاتی ہیں کہ اُس لمحہ کائنات کی چند پاکیزہ خواتین، پاکیزہ روحیں، سب طاہر وجود ایک نوری قافلے کی صورت خدیجہؑ کے آستانے پر اترے۔ یہ سارے انتظام اُس مولودِ مقدس کی آمد کے لئے تھے جو نہ صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی تھیں بلکہ اسرار نبوت کی امین، ولایت کی حامی اور امامت کی ماں بننے والی تھیں۔

نور کی پہلی کرن

پھر وہ لمحہ آیا—وہ لمحہ جس نے وقت کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ ایک نازک سی صدا گونجی، اور دنیا نے پہلی بار اُس نور کا دیدار کیا جسے ملائکہ زمانۂ ازل سے سلام کرتے آئے تھے۔

حضرت خدیجہؑ کی گود میں جب وہ ننھی جان آئی تو حجرے میں عطرِ جنت کی خوشبو پھیل گئی۔ کوئی زمینی روشنی ایسی نہ تھی جو اُس نور کے سامنے ٹھہر سکے۔ گویا یہی وہ لمحہ تھا جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے باغ میں سب سے حَسین کلی نے آنکھ کھولی۔

حضرت خدیجہؑ نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا تو اُن کے لب بے ساختہ خدا کی حمد میں کھل اٹھے۔ اُن کے دل میں ایک ایسی ٹھنڈک اتری جو برسوں کی تنہائیوں کا بدل بن گئی۔ ایسا لگا جیسے ربّ نے اُن کے صبر کی تعبیر خود اُن کی گود میں رکھ دی ہو۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کا چراغ

ولادت باسعادت کی خبر جب نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ کے قدموں کی چال میں ایک نورانی خوشی تھی۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، بیٹی کو گود میں لیا، اور یوں محسوس ہوا جیسے نورِ مصطفویؐ اور نورِ فاطمیؑ نے ایک دوسرے کو پہچان کر تبسم فرمایا ہو۔

روایات کے مطابق رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی بار ہی بیٹی کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو فرمایا: “فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔"

یہ جملہ محض محبت نہیں، ایک حقیقت ہے؛ فاطمہؑ وہ ہستی ہیں جنہوں نے 63 سالہ سیرت مصطفویؐ کو اپنی 18 سالہ زندگی میں بطور کامل پیش کیا۔

بیت نبوت کا نور

اس نورانی ولادت نے مکہ کے پورے ماحول کو بدل دیا۔ یہ وہ ولادت تھی جس نے بتوں کی تاریکیوں میں چمکتی ہوئی توحید کا پرچم بلند کیا۔ یہ وہ ولادت تھی جس نے خدیجہؑ کے گھر کو آسمانی بشارتوں کا مرکز بنایا۔ یہ وہ ولادت تھی جس نے آنے والے ائمہ کی امامت کو ماں کا دامن عطا کیا۔ فاطمہؑ جنہوں نے بیت نبوت میں پرورش پائی،
مکہ کی سختیاں—کفار کی اذیتیں—رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصیبتوں کے لمحے، فاطمہؑ ان سب میں ایک ننھے چراغ کی مانند اپنے بابا کے آنسو پونچھتی رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اُمّ ابیہا کہا‌ یعنی “باپ کی ماں ہے”۔

فاطمہؑ یعنی ولادت میں رحمت، زندگی میں عصمت اور مشن میں شجاعت

حضرت فاطمہؑ کی ولادت نہ صرف ایک بچی کی پیدائش تھی بلکہ رحمتِ نبوت کا ظہور، تطہیرِ اہلِ بیت کی بنیاد، ولایت کے مستقبل کی پہلی کرن، صبر و شجاعت کا محور، عبادت و سجدے کی علامت، کرامت و حیا کا معیار اور انسانیت کی عظیم ترین عورت کا ابتدائی منظر تھیں۔


ان کے وجود میں جہاں ماں خدیجہؑ کا وقار اور سخاوت تھی، وہیں باپ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق و محبت بھی پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر تھا۔

وہ دن آج بھی دلوں کو روشن کرتا ہے

20 جمادی الثانی کا سورج جب دنیا پر طلوع ہوتا ہے تو مومنین کے دلوں میں ایک خاص نور اتر جاتا ہے، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محبت کا سب سے لطیف رنگ فاطمہؑ ہیں، عصمت کا سب سے پاکیزہ آئینہ فاطمہؑ ہیں، ایمان کی سب سے مضبوط ڈور فاطمہؑ ہیں اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کی سب سے بڑی تسکین فاطمہؑ ہیں۔

تخت کائنات پر آج بھی اُن کا نام روشنی کی مانند چمکتا ہے۔
زمین کی تاریخ میں بہت سے واقعات ہوئے، مگر فاطمہؑ کی ولادت ایک ایسا لمحہ ہے جہاں آسمان جھک کر زمین کو سلام کرتا نظر آتا ہے۔

سلام اس پاک مولود پر جو نبوت کا دل، امامت کا سراپا اور ولایت کی جان ہے۔
سلام اس بیٹی پر جس کی رضا رضاے خدا، اور جس کا غضب غضبِ خدا ٹھہرا۔
سلام اس ہستی پر جس کے وجود نے بیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبحِ ازل کی روشنی عطا کی۔
سلام اُس فاطمہؑ پر جسے دیکھ کر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو جاتے تھے۔
سلام ہو فاطمہ زہرا سلامُ اللہ علیہا پر!
سلام ہو اُن کی ولادت کے ہر لمحے پر!
سلام ہو اُس دن پر جس دن رحمت نے زمین کا دامن تھاما!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha